یوم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کے عالمی دن کے مطابق گزارا جاتا ہے اور اس دن دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے- کہیں ان کی تنخواہوں کے بڑھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہیں ان کو صحت کی سہولت فراہم کرنے کی آواز اٹھائی جاتی ہے تو کوئی مزدورں کی انشورنس کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو کچھ خواتین بھی سامنے آجاتی ہیں جن کا نعرہ ہوتا ہے کہ ان کی تنخواہیں بھی مردوں کی تنخواہوں کے برابر کی جائيں اور ان کو بھی کام کرنےکے یکساں مواقع فراہم کیۓ جائيں ۔ ان بڑی بڑی آوازوں کے سامنے کچھ چھوٹے معصوم بچے بھی ہاتھوں میں پلے کارڈ لیے موجود ہوتے ہیں مگر ان پلے کارڈ پر مطالبے یکسر مختلف ہوتے ہیں ان پر لکھا ہوتا ہے ہمیں بچپن دے دو ، ہمیں پڑھنے دو ، ہمیں کھیلنے دو
یوم مئی کے ان تمام نعروں اور ان تمام باتوں سے بے خبر مانسہرہ ڈسٹرکٹ خیبر پختونخواہ کے دس سالہ زبیر خان اپنے موچی کے تھڑے پر بیٹھے شدید گرمی میں بھی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے جوتے گانٹھ رہا تھا ۔ جب زبیر سے اس کم عمری میں اس کام کے بارے میں پوچھا گیا تواس کا کہنا تھا کہ میں اسکول جاتا تھا اور ہمیشہ اپنی جماعت میں پہلے نمبر پر آتا تھا مگر پھر میرے ابو کا انتقال ہو گیا ہمارے گھر میں کمانے والا کوئی نہ تھا باقی سب بہن بھائی چھوٹے تھے اس وجہ سے بڑے بھائی کی حیثیت سے مجھے اپنے ابو کی گدی سنبھالنی پڑی اور مجھے تعلیم چھوڑ کر موچی کی دکان پر بیٹھنا پڑا-
خوبصورت سرخ و سپید رنگت پر جوتوں کی پالشوں کے دھبے اور نرم و نازک ہاتھ جن کو قلم تھامنا چاہیے تھا جوتے گانٹھنے کے اوزار سنبھالے یوم مئی منانے والے ان تمام افراد کا منہ چڑا رہے تھے-ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے اندر اس وقت بھی تمام تر قانون سازی کے باوجود زبیر خان جبیسے سات لاکھ بچے اسکولوں سے دور محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں-
بچوں کی مزدوری کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ چونکہ ان بچوں کا شناختی کارڈ نہیں بنا ہوتا ہے اس وجہ سے ان سے کام تو لیا جاتا ہے مگر ان کا اندراج کسی بھی جگہ ظاہر نہیں کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک جانب تو ان کو کام کرنے کا بہت قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے دوسری جانب ان کی نوکری کی نہ کوئی گارنٹی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے بدلے ان کو صحت و انشورنس جیسی کوئی سہولت میسر ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ان بچوں کے بچپن کے بدلے ان سے بیگار لیا جاتا ہے
یوم مئی کو جہاں لوگ کرونا وائرس کے سبب ہونے والے لاک ڈاون کے سبب بے روزگار ہونے والے مزدوروں کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں وہیں انہیں خود سے یہ بھی عہد کرنا چاہیے کہ حالات چاہے کیسے بھی ہوں عوام اور ریاست کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کسی بھی بچے کو اس کے بچپن سے محروم کر کے اسکول سے دور کر کے مزدوری پر نہیں لگائیں گے اور یہی آج ہم سب کا چارٹر آف ڈیمانڈ ہونا چاہیے کیوں کہ بچے پڑھیں گے تو ملک ترقی کرے گا-
No comments:
Post a Comment