Wednesday, 29 April 2020

عرفان خان: گوناگوں صلاحیتوں کا مالک ایک بڑا اداکار

یوں تو بھارتی فلموں کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو سب کے ذہن میں تینوں خان کے نام آتے ہیں: شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان۔ لیکن ان کامیاب اداکاروں کی موجودگی میں ایک خان ایسا بھی تھا جو انٹرنیشنل معیار پر نہ صرف پورا اترا بلکہ اس نے دنیا کے بہترین اداکاروں کے ساتھ کام کر کے اپنا لوہا منوایا۔
تریپن سالہ عرفان خان نے دو دہائی تک بالی وڈ پر راج کیا۔ کولون انفیکشن کے باعث 29 اپریل کو زندگی کی بازی ہارنے والے عرفان خان نے لواحقین میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور اپنے لاکھوں مداح چھوڑے ہیں۔
عرفان خان 2018 میں نیورو اینڈوکرائن کینسر کے علاج کی وجہ سے لندن منتقل ہو گئے تھے جس کے بعد انہوں نے فلموں میں تو کم کام کیا تھا، لیکن جتنا بھی کیا وہ یادگار رہا۔
عرفان خان نے اپنی اداکاری کا آغاز 80 کی دہائی میں ٹی وی سے کیا تھا۔ ان کا فلمی سفر 1988 میں میرا نائر کی فلم 'سلام بمبئی' سے شروع ہوا۔ نوے کی دہائی میں انہوں نے ٹی وی پر تو زیادہ کام کیا، لیکن فلموں کے حوالے سے انہیں کئی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ تینوں خان کے علاوہ اس دہائی میں منوج واجپائی جیسے منجھے ہوئے اداکار نے بھی اپنا سکہ جمایا ہوا تھا، جس کی وجہ سے عرفان خان کو کردار تو ملتے تھے، مگر چھوٹے۔
اداکارہ ودیا بالن نے لکھا کہ میری آپ سے زیادہ پہچان نہیں تھی لیکن اس کے باوجود میں اپنے آنسو نہیں روک پا رہی ہوں۔ کیوں کہ آپ کی پرفارمنس نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہی آپ کا جادو تھا جو ہمیشہ قائم رہے گا
اداکار سلمان خان نے لکھا کہ عرفان خان کا انتقال فلم انڈسٹری، ان کے مداحوں، ان کے گھر والوں اور ہم سب کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرفان خان ہمیشہ یاد آئیں گے اور ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے
اداکار عامر خان نے بھی عرفان خان کی خدمات کو سراہا اور ان کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
امیتابھ بچن نے لکھا کہ عرفان خان گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ایک بڑے اداکار تھے جو بہت جلد ہمیں چھوڑ گئے۔ ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی عرفان خان کی خدمات کو سراہتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ عرفان خان کا انتقال سنیما کی دنیا اور تھیٹر کے لیے بڑا نقصان ہے۔

مسولینی کے آخری ایام اور دشمنوں کے ہاتھوں موت کی کہانیاں

75 برس قبل 28 اپریل 1945 کو اطالوی ڈیکٹیٹر بنیتو مسولینی کو ان کی گرل فرینڈ کلاریٹا سمیت گولی مار دی گئی تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں مسولینی نے ایک مشہور بیان دیا تھا 'اگر میں میدان جنگ سے پیچھے ہٹوں تو مجھے گولی مار دو'۔
مسولینی کا یہ کہنا محض بیان بازی تھا لیکن جب موقع آیا تو ان کے مخالفین نے ان کے بیان کو حرف بہ حرف پورا کر دیا۔
جنگ میں شکشت کے بعد مسولینی اپنی گرل فرینڈ کلیریٹا کے ساتھ شمال میں سوئٹزرلینڈ کی سرحد کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ڈوگون قصبے کے پاس وہ اپنے مخالفین جنھیں 'پارٹیزن' کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کے ہاتھ لگ گئے۔ انھوں نے بغیر کسی مقدمے کے انھیں ان کے 16 ساتھیوں کے ساتھ کومو جھیل کے پاس گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

لاش پر ایک خاتون نے پانچ گولیاں داغیں

29 اپریل سنہ 1945 کی صبح تین بجے ایک پیلے رنگ کا ٹرک میلان شہر کے پیازالے لوریٹو چوک پر رکا اور مسولینی، ان کی گرل فرینڈ اور 16 دیگر افراد کی لاشوں کو چوک کے گیلے پتھروں پر پھینک دیا گیا۔
آٹھ بجتے بجتے اخبار کے ایک خصوصی ایڈیشن اور ایک ریڈیو بلیٹن کے ذریعے یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ 'ڈوچے' کو سزائے موت دے دی گئی ہے اور ان کی لاش پیازالے لوریٹو میں پڑی ہے۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں آٹھ ماہ قبل مسولینی نے اپنے 15 مخالفین کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔
مورخ رے موزلی اپنی کتاب ’دی لاسٹ 600 ڈیز آف ڈوچے‘ میں لکھتے ہیں ’یہ اطلاع ملتے ہی 5000 کے قریب لوگوں کا بے قابو ہجوم وہاں اکٹھا ہو گیا۔ ایک عورت نے مسولینی کی لاش کے سر پر پانچ گولیاں داغیں اور کہا کہ اس نے ان سے اپنے پانچ بچوں کی موت کا بدلہ لے لیا ہے۔ ایک دوسری عورت نے اپنی سکرٹ اٹھائی اور سب کے سامنے بیٹھ کر مسولینی کی بگڑی ہوئی صورت پر پیشاب کیا۔
’ایک دوسری عورت کہیں سے ایک کوڑا لے آئی اور مسولینی کی لاش پر کوڑے برسانے لگیں۔ ایک اور شخص نے مسولینی کے منہ میں ایک مردہ چوہا ڈالنے کی کوشش کی۔ اس دوران وہ مسلسل چیختا رہا کہ 'اب اس منہ سے تقریر کرو‘۔

مسولینی اور کلیریٹا کی لاشوں کو الٹا لٹکایا گیا

اس ہولناک منظر کو بیان کرتے ہوئے لوسیانو گیریبالڈی اپنی کتاب 'مسولینی دی سیکرٹ آف ہز ڈیتھ' میں لکھتے ہیں:'مشتعل ہجوم کے اندر اتنی نفرت تھی کہ وہ ان تمام 18 لاشوں کے اوپر چڑھ گئے اور انھیں اپنے پاؤں سے کچل دیا۔
اسی وفت ایک لمبے چوڑے شخص نے 'ڈوچے' کی لاش کو بغل سے پکڑ کر اوپر اٹھایا تاکہ وہاں موجود لوگ اسے بہتر ڈھنگ سے دیکھ سکیں۔ اس کے بعد بھیڑ سے آواز آنے لگی 'اور اونچا، اور اونچا! ہم دیکھ نہیں پا رہے ہیں۔‘ یہ سن کر اس شخص نے مسولینی، ان کی گرل فرینڈ کلیریٹا اور چار دیگر افراد کی لاشوں کو ان کے ٹخنوں پر رسی سے باندھ کر زمین سے تقریباً چھ فٹ اوپر الٹا لٹکا دیا۔
جیسے ہی کلیریٹا کے جسم کو الٹا لٹکایا گیا اس کی سکرٹ مڑ کر اس کے منہ پر آگئی۔ اس نے سکرٹ کے نیچے کوئی زیر جامہ نہیں پہنا تھا۔ بھیڑ نے اس حالت میں بھی کلیریٹا کے جسم کی بے حرمتی جاری رکھی۔ پھر ایک شخص نے آگے بڑھ کر کلیریٹا کے سکرٹ کو ٹھیک کر کے اس کے ٹخنے سے باندھ دیا۔

مسولینی کا جسم نیچے گرا


مسولینی کی زندگی پر ایک اور کتاب 'دی باڈی آف ڈوچے' لکھنے والے مصنف سرجیو لوزاٹو لکھتے ہیں کہ 'مسولینی کا پورا چہرہ خون آلود تھا اور اس کا منہ کھلا ہوا تھا جبکہ کلیریٹا کی آنکھیں خلا میں تک رہی تھیں۔
 پھر فاشسٹ پارٹی کے ایک سابق سکریٹری اکییلے اسٹاریچی نے انتہائی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مردہ رہنما کو فاشسٹ سلامی پیش کی۔ اس وقت اس نے جاگنگ سوٹ پہن رکھا تھا۔ اسے فوراً پکڑ لیا گیا اور تمام لوگوں کے سامنے اس کی پیٹھ میں گولی مار دی گئی۔
وہ مزید لکھتے ہیں ’ اسی دوران فاشسٹ پارٹی کے اہم رہنما فرانسسکو فاراشکو براشو کی لاش کی رسی ٹوٹ گئی اور وہ زمین پر گر گئی ۔ اس کے بعد مسولینی کی لاش کی رسی بھی کاٹ دی گئی اور اس کا جسم بھی پیازالے لوریٹو کے پتھروں پر گرا۔‘

خوفناک منظر


 ریگ انگراہم بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ بعد میں انھوں نے اپنے مضمون 'دی ڈیتھ ان میلان' میں لکھا ’سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا۔ اچانک ایک شخص تمام لاشوں کے اوپر چڑھ گیا اور مسولینی کے گنجے سر کو پوری قوت سے لات ماری۔ پھر ایک اور شخص نے مردہ مسولینی کا سر رائفل بٹ سے سیدھا کیا۔ موت کے بعد مسولینی بہت چھوٹے نظر آ رہے تھے۔ انھوں نے فاشسٹ ملیشیا کی وردی پہن رکھی تھی۔
'ان کے پاؤں میں سیاہ رنگ کے رائڈنگ بوٹ تھے، جو کیچڑ میں لت پت تھے۔ ایک گولی ان کی بائیں آنکھ کے قریب داخل ہو کر سر کے پچھلے حصے سے نکل گئی تھی۔ اسی وجہ سے ان کے سر میں ایک بہت بڑا سوراخ تھا جہاں سے ان کے مغز کے کچھ حصے باہر نکل آئے تھے۔ ان کی 25 سالہ گرل فرینڈ کلیریٹا پیٹاچی نے سفید رنگ کا ریشمی بلاؤز پہن رکھا تھا۔ ان کے سینے پر دو گولیوں کے سوراخ تھے جہاں سے خون نکل کر جم چکا تھا۔‘
مسولینی کی موت پر نیو یارک ٹائمز نے لکھا تھا 'ایک شخص جس نے قدیم روم کی عظمت کو واپس لانے کی بات کی تھی اس کا جسم میلان کے ایک چوک میں پڑا تھا اور ہزاروں افراد اسے ٹھوکر مار کر، اس پر تھوک کر لعنت بھیج رہے تھے۔‘

موسوکو قبرستان میں تدفین

امریکی فوجیوں کی مداخلت کے بعد دو پہر ایک بجے تمام لاشوں کو لکڑی کے تابوت میں رکھ کر اسے شہر کے مردہ خانے بھیج دیا گیا۔ وہاں مسولینی کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ اس وقت 5 فٹ 6 انچ کے مسولینی کا وزن 79 کلو تھا۔ ان کی موت کی وجہ چار گولیاں تھیں جو ان کے سینے کے پار نکل گئی تھیں۔
ان کے پیٹ پر السر کے نشانات تھے لیکن سیفلیس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ اس سے قبل یہ افواہ گرم تھی کہ مسولینی سیفلیس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مسولینی کی لاش کو میلان میں موسوکو قبرستان کی قبر نمبر 384 میں دفن کیا گیا۔
ان کے دماغ کے کچھ حصے کو واشنگٹن کے سینٹ الزبتھ سائیکائٹرک ہسپتال میں جانچ کے لیے بھیجا گیا تھا جو دہائیوں بعد ان کی بیوہ ڈونا راشیل کو واپس کر دیا گیا۔

مسولینی میلان سے بھاگے


کلیریٹا کو 9 ملی میٹر کی دو گولیاں لگیں۔ انھیں بھی میلان میں ہی ریٹا کولفوسکو کے نام سے دفن کیا گیا۔ مسولینی اور کلیریٹا کی آخری گنتی 18 اپریل سنہ 1945 کو میلان پہنچنے کے بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔ 21 اپریل کو امریکہ کے یو ایس او ایس کے فوجی بھیج کر مسولینی کی گرفتاری کے منصوبے کو ہائی کمان نے منظور نہیں کیا تھا۔
جبکہ اگلے ہی دن مسولینی کی سکیورٹی میں شامل جرمن ویفن ایس ایس بٹالین کو ہٹا کر بڑھتی ہوئی اتحادی اور کمیونسٹ پارٹیزنز کی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔
بلیئن ٹیلر 'وارفیئر ہسٹری نیٹورک' میں شائع ہونے والے اپنے مضمون 'دی شاکنگ سٹوری آف ہاؤ مسولینی ڈائیڈ' میں لکھتی ہیں کہ 'اس وقت اس طرح کی خبریں تھیں کہ مسولینی کے کچھ فاشسٹ ساتھی اور کلیریٹا کے بھائی مارسیلو، مسولینی کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ جرمنی بھی اپنی جان بچانے کے لیے اتحادی ممالک سے مسولینی کا سودا کرنے کے لیے راضی ہو گیا تھا۔
'کیتھولک چرچ اور چند لاطینی امریکی ممالک نے بھی مسولینی کو سیاسی پناہ کی پیش کش کی تھی لیکن مسولینی نے انھیں یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ کبھی بھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور آخری وقت تک لڑیں گے۔ جب مسولینی کو معلوم ہوا کہ جرمن فوجی 25 اپریل کو خفیہ طور پر ہتھیار ڈالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو انھوں نے فوری طور پر میلان چھوڑ دیا۔ ان کے ساتھ ان کے جرمن باڈی گارڈ چیف فرٹز برزر اور خفیہ پولیس کے لیفٹیننٹ اوٹو کسنیٹ بھی موجود تھے۔ ان دونوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ مسولینی کو اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور اگر وہ فرار ہونے کی کوشش کریں تو وہ انھیں خود گولی مار دیں۔‘

بہرحال مسولینی کو یہ بتایا دیا گیا تھا کہ غیر جانبدار سوئٹزرلینڈ انھیں قبول نہیں کرے گا لیکن وہ حتمی جنگ لڑنے کے بجائے سوئٹزرلینڈ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جبکہ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسولینی سوئٹزرلینڈ نہ جا کر نازی کے کنٹرول والے آسٹریا کے ٹیلورین علاقے میں جانا چاہتے تھے۔
27 اپریل کو مسولینی کے قافلے کو 52 ویں گریبالڈی پارٹیزن بریگیڈ کے فوجیوں نے جھیل کومو کے قریب روکا۔ انھوں نے جرمن فوجیوں سے کہا کہ انھیں اس شرط پر آگے بڑھنے دیا جائے گا جب وہ اپنے ساتھ چلنے والے اطالویوں کو ان کے حوالے کر دیں گے۔
رے موزلی کہتے ہیں کہ 'مسولینی کے ہمراہ سفر کرنے والے لیفٹیننٹ ہانز فالمیئر اور فرٹز برزر نے اس شرط کو قبول کرنے پر اتفاق کیا۔ جب برزر نے بکتر بند گاڑی میں مسولینی کو اپنا فیصلہ سنایا تو انھوں نے اس کی مخالفت کی۔ لیکن کوئی دوسرا آپشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی اس بات پر راضی ہو گئے۔ پھر برزر نے اپنا اوور کوٹ اتارا اور مسولینی کو پہنا دیا۔ لیکن مسولینی اس کو پہننے میں ہچکچا رہے تھے کیونکہ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ ان کے لیے یہ شرم کی بات ہوگی کہ وہ ایک جرمن گاڑی میں جرمن فوجی کی وردی پہنے ہوئے پکڑے گئے۔‘

مسولینی کی شناخت ہوئی


مسولینی بکتر بند کار سے اترنے کے بعد دوسرے ٹرک میں سوار ہوگئے۔ انھوں نے جرمن فوج کا سٹیل کا ہیلمٹ الٹا پہن رکھا تھا۔ لیفٹیننٹ برزر نے اسے سیدھا کیا۔ قافلے میں روانہ چوتھے ٹرک کے ایک کونے میں پڑے مسولینی نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ شراب کے نشے میں مدہوش ہیں۔ لیکن آسٹریا اور فاشسٹ پارٹی کے نکولا بومباچی نے 'پارٹیزنز' کو بتایا کہ قافلے میں کچھ اطالوی شامل ہیں لہذا آپ ٹرکوں کی تلاشی لیجیے۔
اس کے بعد 'پارٹیزنز' نے ٹرکوں کے قافلے کو دوبارہ روکا۔ اطالوی بحریہ کے ایک پرانے جہاز راں گیسیپ نیگری نے ٹرک کی تلاشی لی اور انھوں نے فوری طور پر مسولینی کو پہچان لیا۔ اس نے اپنے ساتھی آربونو لزارو کو آگاہ کیا کہ مسولینی ان کی گرفت میں ہے۔ لزارو ٹرک کے اوپر چڑھ گئے اور مسولینی کے کندھے پر تھپتھپایا اور کہا کامریڈ۔ لیکن مسولینی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے مزید اونچی آواز میں مسولینی کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے کہا 'یور ایکسیلینسی'۔ مسولینی پھر بھی خاموش رہے۔ اس کے بعد لزارو نے تیسری بار کہا، 'کیویلیئر بینیٹو مسولینی'۔
جہاز راں گیسیپ نیگری نے بعد میں بتایا 'میں نے مسولینی کا ہیلمٹ اتارا۔ ان کا سر گنجا تھا۔ پھر میں نے ان کے سن گلاسز اتار کر ان کے کالر کو نیچے کردیا۔ مسولینی میرے سامنے بیٹھے تھے۔ لزارو نے مسولینی کی مشین گن اٹھا لی اور پھر مسولینی نے ایک لفظ بھی کہے بغیر اپنی 9 ایم ایم گلیسینٹی آٹومیٹک پستول ان کے حوالے کردی۔ پھر لزارو نے ان سے پوچھا 'کیا آپ کے پاس کوئی اور ہتھیار ہے؟' اس پر انھوں نے کہا 'میں مسولینی ہوں۔ میں آپ کے لیے کوئی مشکلات پیدا نہیں کروں گا۔‘

مسولینی کا بریف کیس

مسولینی کو ٹرک سے اتار کر ٹاؤن ہال لے جایا گیا۔ رے موزلی کے مطابق مسولینی نے فرٹز برزر کا دیا ہوا اوور کوٹ اتارا، کیونکہ یہ کوٹ ان کے لیے بہت بڑا تھا۔ اس کے نیچے انھوں نے کالی قمیض اور ملیشیا کی پتلون پہن رکھی تھی۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں ایک بریف کیس تھا جس میں ان کے انتہائی اہم ذاتی کاغذات تھے۔
جب وہ بریف کیس ان سے لیا گیا تھا تو مسولینی نے کہا 'اس کا خیال رکھنا۔ اس میں اٹلی کی قسمت قید ہے۔‘ بعد میں جب ان کی جانچ پڑتال کی گئی تو اس میں مسولینی کے ذریعے ہٹلر اور چرچل کو لکھے گئے خطوط تھے۔ اس میں اٹلی کے ولی عہد شہزادہ امبرٹو کی ہم جنس پرست سرگرمیوں کی تفصیلات بھی تھیں۔ اس کے بعد مسولینی کو بونزانگو کے فارم ہاؤس لے جایا گیا۔
تھوڑی دیر بعد ان کی گرل فرینڈ کلیریٹا پیٹاچی کو بھی وہاں لایا گیا۔ دونوں نے رات ایک ہی بستر پر گزاری۔ دریں اثنا کرنل ویلریو کو انھیں موت کی سزا دینے کے لیے میلان سے بھیجا گیا۔ ویلریو نے مسولینی اور کلریٹا دونوں کو ایک کار میں بٹھایا۔

گولی مارنے کے مقام پر تنازع



بعد میں 19 سالہ ڈورونا مزولا نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے مسولینی اور کلیریٹا کو ڈیماریا فارم ہاؤس کے بالکل باہر گولی مارتے ہوئے دیکھا تھا۔ بعد میں اس دعوے کی بنیاد پر مورخین نے اس حقیقت کو چیلنج کیا کہ ان دونوں کو ولا بیلمونٹ کے مرکزی گیٹ وے پر گولی ماری گئی تھی۔
یہ بھی متنازع ہے کہ مسولینی اور کلیریٹا پر پہلے گولی کس نے چلائی۔ یہ بھی کہا گیا کہ پہلے ہی مارے جا چکے مسولینی اور کلیریٹا کی لاشوں پر ولا بیلمونٹ میں ایک بار پھر گولی چلائی گئی۔ بعد میں مارچ سنہ 1947 میں روم میں منعقدہ ایک انتخابی ریلی میں پارٹیزن کے والٹر آڈیسیو نامی شخص نے 40 ہزار افراد کے سامنے اعتراف کیا کہ انھوں نے مسولینی اور کلیریٹا کو گولی ماری تھی۔
آڈیسیو نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ بعد میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ شوٹنگ کے دوران آڈیسیو کی مشین گن اور پستول دونوں ناکام ہوگئے تھے اور پھر آڈیسیو نے مسولینی پر اپنے ایک ساتھی موریٹٹو کی سب مشین گن سے پانچ گولیاں چلائیں۔ بعد میں ولیریو نے مسولینی کے آخری وقت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'مسولینی خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے اور اپنی جان بخشی کی التجا کر رہے تھے۔' ایک ’پارٹیزن' کے مطابق مسولینی کے آخری الفاظ تھے 'میرے سینے پر گولی مارو۔' جبکہ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ 'مسولینی نے کہا میرے دل کا نشانہ لو‘۔
مسولینی سے متاثر ہوکر ہٹلر نے خودکشی کی
بعض مورخین کا خیال ہے کہ مسولینی کے جسم کے ساتھ ناروا سلوک نے ہٹلر کو خودکشی کرنے اور پھر اپنے جسم کو جلا دینے کی ترغیب دی۔ پروفیسر کرٹزر نے اپنی کتاب 'دی پوپ اینڈ مسولینی' میں لکھا 'مسولینی کی موت کی خبر ہٹلر کو 29 اپریل سنہ 1945 کو ریڈیو کے ذریعے اپنے زیرزمین بنکر میں ملی۔ تمام تفصیلات جاننے کے بعد ہٹلر نے کہا کہ ’میری لاش کسی بھی قیمت پر دشمنوں کے ہاتھ نہیں لگنی چاہیے


Tuesday, 28 April 2020

کچھ ایسی بری عادات جو کہ رمضان میں آسانی سے چھوڑی جاسکتی ہیں




رمضان کے مہینے کو بہت سارے حوالوں سے اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اس مہینے کی س

سے خاص بات یہ ہے کہ اس مہینے میں قرآن پاک کا نزول ہوا اور اس کے ساتھ اس ماہ مبارک کے روزے تمام مسلمانوں پر فرض کیے گئے- اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے اجر کو اپنی ذات سے موسوم کر دیا اور تمام روزے داروں سے یہ وعدہ فرما لیا کہ اس مہینے کا اجر اللہ تعالیٰ خود دیں گے ۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے لیے روحانی اعتبار کے ساتھ ساتھ جسمانی اعتبار سے بھی بہت بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس مہینے انسان اپنی تربیت کے ذریعے بہت ساری برائیوں اور بری عادات سے خود کو بچا سکتا ہے اور ایک نئے انسان کے طور پر جنم لے سکتا ہے- کچھ ایسی بری عادات جو اس مہینے کی برکت سے ختم کی جا سکتی ہیں آج ہم آپ کو بتائيں گے-

1: زيادہ کھانے کی عادت
عام طور پر ہم میں سے بہت سارے افراد ایسا محسوس کرتے ہیں کہ ان کو اس دنیا میں کھانے کے لیے ہی بھیجا گیا ہے اور وہ اتنا کھانا کھا لیتے ہیں کہ ان کے لیے سانس لینا بھی دو بھر ہو جاتا ہے- مگر اپنی اس عادت کو ہم رمضان میں بہت اچھے طریقے سے بہتر بنا سکتے ہیں اور صرف سحر و افطار کے اوقات میں صرف اتنا کھانا کھا کر جس سے زںدہ رہا جا سکے ز
کھانے کی عادت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے-
2: تمباکو نوشی اور چائے
عام طور پر انسان کام کے دوران یا پھر روزمرہ کے اوقات میں بار بار چائے پیتے ہیں یا تمباکو نوشی کرتے ہیں اور جب ان کو ان عادات کو چھوڑ دینے کا کہا جاتا ہے تو ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ نہیں چھوڑ سکتے اس کے بغیر کھانا ہضم نہیں ہوتا ہے یا پھر سر میں درد شروع ہو جاتا ہے- مگر رمضان ان بری عادات کو چھوڑنے کا ایک نادر موقع ہے اس وقت روزے کی برکت سے آپ روحانی طور پر مضبوط ہو گئے ہیں اور اس ایک مہینے میں اپنی ان بری عادات سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے بعد تاعمر اس سے محفوظ رہنے کا عہد کر سکتے ہیں-
3: جھوٹ بولنے سے 
روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے ایک روزے دار کو اپنے روزے کا ثواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ان تمام باتوں سےبھی پرہیز کرے جس سے رکنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔ ان تمام معاملات میں جھوٹ ایک ایسی برائی ہے جس میں مبتلا انسان بڑی بڑی برائیوں میں مبتلا ہو سکتا ہے مگر روزے کے ذریعے اس ایک
عادت سے جان چھڑا کر انسان خود کو بڑی بڑی برائیوں سے بچا سکتا ہے
4: بد نظری سے
بدنظری ایک ایسا گناہ ہے جو کہ بے حیائی کی جڑ ہے اورجو لوگ اس برائی میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو روزہ ایک ڈھال کی طرح بچا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو اتنا مضبوط بنا سکتا ہے کہ وہ دوبارہ اس گناہ کی طرف نہ جائيں-
5: غصے سے
چھوٹی چھوٹی باتوں پر اشتعال میں آنے والے لوگ عام دنوں میں اپنے غصے کے سبب نہ صرف اپنے معاملات میں نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی زبان سے بھی ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جو کہ نہ صرف دوسرے کے دل دکھانے کا باعث بنتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بد گوئی کا بھی باعث بنتے ہیں- جب کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ غصہ حرام ہے تو روزے کی حالت میں انسان کے کردار کی ایسی تربیت ہو سکتی ہے جس سے وہ اپنے غصے پر کنٹرول حاصل کر سکتا ہے اور رمضان کے بعد بھی اس حرام چیز سے بچ سکتا ہے -

یاد رکھیں !
رمضان صرف ایک مہینے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک تربیت گاہ ہے جو کہ انسان کو جسمانی اور روحانی طور پر اتنا مضبوط کر دیتا ہے کہ جس کے ذریعے انسان نہ صرف بری عادات کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ سکتا ہے بلکہ اچھی عادات کو اپنا کر ہمیشہ کے لیۓ کامیاب ہو

جیک ما: کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کوشاں چین کے امیر ترین شخص کو کس سے خطرہ ہے




کیا آپ کو معلوم ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کسی بھی کھیل میں پاکستان کی طرف سے
 سب سے پہلا گولڈ میڈل کس نے حاصل کیا تھا؟ یہ اعزاز پہلوان دین محمد کو 1954 میں منیلا کے ایشین گیمز میں حاصل ہوا تھا
لیکن آج دین محمد 95 سال کی عمر میں لاہور کے نواحی علاقے باٹاپور کے ایک گاؤں میں گمنامی کی زندگی بسر کررہے ہیں
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران گذشتہ ماہ چین کے سب سے رئیس شخص نے ٹوئٹر پر اپنا اکاوٴنٹ کھولا۔ تب سے لے کر اب تک ان کی ہر پوسٹ چین اور دنیا کے ہر ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے طبی امداد کے بارے میں ہے
جیک ما نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ’ایک دنیا، ایک جنگ!’ تو وہیں دوسرے میں وہ لکھتے ہیں ’ہم ساتھ مل کر اسے ممکن بنا سکتے ہیں۔‘
چین کے اس ارب پتی کی کوششوں کے نتیجے میں اس وقت دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک کو ادویات اور طبی سامان بھیجا جا رہا ہے جس میں چہرے کے ماسک اور وینٹیلیٹرز بھی شامل ہیں۔
تاہم جیک ما کے متعدد حامی اور بہت سے مخالفین بھی سر کھجا رہے ہیں کہ انھوں نے خود کو کس مشکل میں مبتلا کر لیا ہے۔
لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ اپنی ان سرگرمیوں کی وجہ سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نئے اور ہمدرد چہرے کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں یا انھیں پارٹی اپنے پروپیگینڈا کے لیے استعمال کر رہی ہے؟
جن ممالک کی جیک ما مدد کر رہے ہیں انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ چین کے سفارتی تعلقات کو دھیان میں رکھتے ہوئے قدم اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے اقدام سے اپنے ملک سمیت دنیا بھر میں ان کی بڑھتی شہرت سے پیدا ہونے والا حسد چین کے قدآور سیاستدانوں کو ان کے خلاف بھی کر سکتا ہے۔
جیک کی ہی طرح دیگر ٹیکنالوجی کاروباروں کے ارب پتی مالکین نے بھی کورونا وائرس کی وبا کے خاتمے کا عہد کیا ہے، جیسے ٹوئٹڑ کے جیک ڈورسی نے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا اور بل اینڈ لنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے بھی بھاری رقم عطیہ کی ہے۔

’جیک ما یہی کام تو کرتے ہیں‘

کینڈِڈ نامی خدمت خلق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق دنیا بھر سے اس مقصد کے لیے امداد دینے والوں میں علی بابا گروپ کے مالک جیک ما کا 12واں نمبر ہے۔

لیکن اس فہرست میں وینٹیلیٹرز اور ماسک جیسی اہم چیزوں کا شمار نہیں کیا گیا ہے، جو بہت سے ممالک کے لیے اس وقت رقم سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
علی بابا نے ضروری اشیا دیگر ممالک میں بھیجنے کا سلسلہ مارچ میں شروع کیا تھا۔ ان کی کمپنی افریقہ، ایشیا، یورپ، لاطینی امریکہ اور یہاں تک کہ ایران، اسرائیل، روس اور امریکہ تک ضروری اشیا طیاروں کی مدد سے پہنچا رہی ہے۔
کورونا وائرس سے متعلق ضروری تحقیق اور چین کے سنکیانگ صوبے سے طبی عملے کے نسخوں کا 16 زبانوں میں ترجمہ کروا کر ان ممالک کو بھی بھیجا جا رہا ہے۔ لیکن ما کی جانب سے بھیجی جانے والی طبی اشیا سب سے زیادہ سرخیوں میں ہیں۔
ما کی سوانح حیات لکھنے والے ڈنکن کلارک کہتے ہیں کہ ’ان کے پاس پیسہ ہے اور چین کے علاقے ہانگزو سے سامان کو فضائی طیاروں کے ذریعے کہیں بھی پہنچانے کی طاقت ہے’
انھوں نے کہا ’سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا، ما کی کمپنی اور ان کے ماتحت یہی کام تو کرتے ہیں
۔’
چینی خارجہ پالیسی کی پیروی
ما کا ایک انگریزی کے استاد سے چین کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کے مالک بننے تک سفر غیر معمولی رہا ہے۔
ان کی کمپنی علی بابا کو ’مشرق کا ایمازان’ بھی کہا جاتا ہے۔ ما نے اس کمپنی کا آغاز 1999 میں چین کے شہر ہانگزو میں اپنے اپارٹمنٹ سے کیا تھا۔
وہ تب تھا۔ اب علی بابا کا شمار دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے اور ما 40 بلین ڈالر کے ساتھ چین کے سب سے رئیس شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
انھوں نے 2018 میں کمپنی کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ خدمت خلق پر توجہ دینا چاہتے ہیں لیکن کمپنی کے بورڈ میں ان کا مستقل مقام اب بھی برقرار ہے۔ اپنی دولت اور شہرت کے دم پر وہ اس وقت چین کے سب سے طاقتور شخص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے جیسے ما کی جانب سے کی جانے والی امدادی کارروائیاں کمیونسٹ پارٹی کی خواہشات کے مطابق کی جا رہی ہیں۔
اب تک جیک ما کی جانب سے امداد کسی ایسے ملک نہیں گئی جس کے چین کے سفارتی حریف ہم سایہ تائیوان سے تعلقات ہوں۔
ما نے ٹوئٹر پر اعلان کیا تھا کہ وہ لاطینی امریکہ کے 22 ممالک کو امداد بھیج رہے ہیں۔ تاہم وہ ممالک جو تائیوان کا ساتھ دیتے ہیں اور ہونڈورس جیسے ممالک سے امداد منگوا رہے ہیں وہ ان 185 ممالک میں شامل نہیں ہیں جنھیں جیک ما نے سامان بھیجی ہے۔
ان کی تنظیم مستقل ان ممالک کے نام واضح کرنے سے انکار کر رہی ہے۔
لیکن سب ہی ممالک میں ما کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اس کامیابی کی وجہ سے ما کو ان دنوں پہلے سے بھی زیادہ توجہ اور شہرت حاصل ہے۔
چینی میڈیا سمیت ملک کے رہنما شی جن پنگ کی نظریں بھی ما پر ٹکی ہیں اور ما کے ساتھ شی کا موازنہ صدر کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔
سوال اٹھ رہے ہیں کہ صدر نے کورونا وائرس کی صورت حال کو قابو کرنے کے لیے کیا کیا اور یہ وبا پھوٹی کیسے؟
کورونا وائرس سے بری طرح متاثرہ یورپی اور جنوب مشرقی ممالک کو چین کی حکومت کی جانب سے طبی عملے کے ساتھ امدادی اشیا بھی بھیجی گئی ہیں۔
تاہم ان کی ان کوششوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب متعدد ممالک نے کہا کہ چین سے بھیجا گیا سامان ان کے لیے ناقابلِ استعمال کیونکہ اس میں نقائص تھے۔ سامان کے معیار پر سوال اٹھے اور امدادی کارروائی الٹے چین کے گلے پڑ گئی۔
ما نے سب ہی افریقی ممالک کا سفر کرنے کا عہد کیا تھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد سے وہ مسلسل افریقہ کا سفر کرتے بھی رہے ہیں۔ ان کی جانب سے افریقہ بھیجی جانے والی امداد پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔

کیا جیک ما خطرہ مول لے رہے ہیں؟

یہ سوال بھی کھڑا ہو رہا ہے کہ کیا جیک ما بیجنگ کو ناراض کر رہے ہیں؟
چینی صدر کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیوں اپنے علاوہ کسی اور کو توجہ کا مرکز بنتے دیکھنا پسند نہیں ہے اور ماضی میں بھی مشہور چہرے ان کا ہدف بن چکے ہیں۔
حال ہی میں ملک کی بہترین اداکارہ سمیت ایک نیوز اینکر اور متعدد ارب پتی طویل عرصے کے لیے غائب ہو گئے تھے۔
ان میں سے نیوز اینکر سمیت چند جیل پہنچ گئے اور باقی جب حراست سے باہر آئے تو پارٹی کی حمایت کی قسمیں کھا رہے تھے۔
واشنگٹن میں سینٹر فار نیو امریکن سیکیورٹی کی ریسرچ ایسوسی ایٹ ایشلی فینگ نے بتایا کہ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ 2018 میں جیک ما کی ریٹائرمنٹ کے پیچھے بھی ان کی شہرت ہی تھی۔
ایک مقامی کاروباری شخصیت کی بڑھتی شہرت کے ملک میں صدر کی مقبولیت پر حاوی ہونے کا خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا۔
ما کے ریٹائرمنٹ کے اعلان نے سب ہی کو حیران کر دیا تھا تاہم وہ ایسے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں کہ ان پر حکومت کی جانب سے کوئی دباوٴ تھا۔
ما کی زندگی پر کتاب لکھنے والے ڈنکن کلارک نے بتایا کہ اس درمیان سنہ 2017 میں ما نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی۔
کلارک نے بتایا کہ ’ان دنوں قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ جیک ما بہت تیزی سے آگے نکل گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت دونوں جانب سے اُس بارے میں سبق حاصل کیے گئے کہ مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ چلا جائے۔’
کلارک نے بتایا کہ چین کی حکومت پارٹی کے باہر کسی شخص کے ہاتھ میں طاقت دیکھ کر بھی بے چین ہو جاتی ہے۔
تکنیکی طور پر ما کمیونسٹ پارٹی کے لیے غیر نہیں ہیں۔ چین کا سب سے رئیس شخص سنہ 1980 میں یونیورسٹی کے دنوں سے کمیونسٹ پارٹی کا رکن رہا ہے۔
لیکن ما کا پارٹی کے ساتھ تعلق عجیب رہا ہے۔ اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ما کا کمیونسٹ پارٹی سے تعلق اس معشوق کی طرح ہے جس سے وہ شادی نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن محبت کرتے ہیں۔
اگر ما اور اس سے منسلک تنظیموں کی جانب سے کیے جانے والے امدادی اقدامات حکومت سے پوچھے بغیر کیے گئے ہیں تو بھی حکومت ان سے فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
سیئیرا لیون سے لے کر کمبوڈیا تک جہاں کہیں بھی ما کی جانب سے سامان بھیجا جا رہا ہے وہاں چین کےسفیر ہوائی اڈوں پر بھیجی گئی اشیا کا استقبال کر رہے ہیں۔
ما کے امدادی اقدامات کا سہارا لے کر چین نے امریکہ پر بھی تعنہ کسا۔ اپریل ماہ کے آغاز میں چین کے وزارت خارتہ نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’امریکہ کے وزارت خارجہ نے کہا کہ تائیوان ایک سچا دوست ہے اس نے بیس لاکھ ماسک کی امداد دی ہے۔
’کیا جیک ما کی جانب سے بھیجے جانے والے دس لاکھ ماسک اور پانچ لاکھ ٹیسٹنگ کٹس کے علاوہ چینی کمپنیوں اور صوبوں سے دی جانے والی مدد کے بارے میں امریکہ کو کچھ نہیں کہنا ہے؟’
ممکن ہے ما کے ساتھ پارٹی کا رویہ اوروں سے مختلف ہو۔ چین کو آخر ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو عالمی سطح پر اپنی چھاپ چھوڑ سکے اور جیک ما ایسے شخص کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جس کا کوئی متبادل نا ہو۔
ایرک اولینڈر کہتے ہیں کہ افریقہ میں ما نے جو کچھ کیا اس سے ایک سبق سیکھنا چاہیے ’انھوں نے کہا کہ وہ کچھ کریں گے اور وہ ہو بھی گیا۔’
ایرک کا خیال ہے کہ ’یہ دیکھنے میں ایک بہت زبردست بات لگتی ہے خاص کر ایک ایسے علاقے کے لیے جہاں اکثر غیر ملکی آتے ہیں، وعدے کرتے ہیں اور انھیں نبھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
’کووڈ 19 کی وبا سے لڑنے کے لیے ان کا تعاون اس خاص پیٹرن میں فٹ ہوتا ہے۔ انہوں نے اس کام کے لیے کہا کہ وہ کریں گے اور چند ہی ہفتوں میں مقامی ہیلتھ کیئر ورکرز کے پاس ماسک تھے۔’
ما نے ملک میں اور ملک کے باہر بڑے بڑے کاروباریوں اور طاقتور شخصیات سے دوستی کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
چینی حکومت کے لیے یہ بہت پسندیدہ بات تو نہیں لیکن موجودہ صورت حال میں ان کا ما کے خلاف ہونا بھی آسان نہیں ہے۔
ما اور ان کے جیسے دیگر کاروباری افراد کے امدادی اقدامات کی وجہ سے چین کو اپنی امیج بہتر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کینڈڈ کے اینڈرو گریبورس نے بتایا کہ چین سے ملنے والی امدادی رقم کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے۔
گریبورس کا خیال ہے کہ چین اس وقت وہ کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے جو کسی دور میں امریکہ کیا کرتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’سب سے واضح رد عمل 2014 میں ایبولا کی وبا پھوٹنے پر سامنے آیا تھا۔ دیگر ممالک میں یہ وائرس پھیلنے سے پہلے ہی امریکہ نے مغربی افریقہ میں اپنے طبی عملے کو بھیج دیا تھا۔’
اب کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں چین یہی کردار ادا کر رہا ہے۔ گریبورس نے کہا کہ چین اب اپنی سافٹ پاور کو اپنی سرحد کے باہر واضح کر رہا ہے، امداد کے ذریعہ، پیسوں اور ماہرین دونوں کی شکل میں۔
اس لیے یہ چین کی حکومت کے لیے ما کے راستے میں آنے کا صحیح وقت نہیں ہے۔
ڈنکن کلارک نے کہا کہ ’یہ وائرس اس وقت عالمی بحران کے طور پر سامنے ہے۔ لیکن ظاہر ہے یہ چین کے باقی دنیا سے تعلقات کے لیے بھی مشکل وقت ہے۔ اس وقت انھیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اس دباوٴ کو کچھ کم کر سکے۔’

سلطنت عثمانیہ: ارطغرل کون تھے؟





ارطغرل غازی کے نام سے ایک ترک ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن پر اردو زبان میں نشر کیا جا رہا ہے۔ لیکن 
اردو زبان میں ڈبنگ سے قبل یہ ڈرامہ پاکستان میں اس حد تک مقبول ہے کہ اس کے مداحوں میں وزیراعظم عمران خان کو بھی گنا جاتا ہے جو اس میں دکھائی گئی ’اسلامی تہذیب‘ کی تعریف کر چکے ہیں۔
عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔ اس کے علاوہ ان کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں
کئی صدیوں تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان اور سلطنت کا آغاز تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں عثمانی روایات کے علاوہ اس دور کی دو ٹھوس نشانیاں (ایک سکہ اور بازنطینی سلطنت کے مؤرخ کی ایک تحریر) اور عثمان کے ایک خواب کا ذکر ملتا ہے جس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔
جو بات طے ہے وہ یہ کہ عثمان کا تعلق آج کے ترکی میں اناطولیہ کے علاقے میں آباد ترک خانہ بدوش قبیلے سے تھا اور اس کی حکومت اناطولیہ کی درجنوں چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں سے ایک تھی جن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عثمان یا پھر ان کے والد نے ایسا کیا کیا کہ صرف اسی خاندان کا راج قبیلے سے چھوٹی ریاست اور پھر اناطولیہ کی بڑی سلطنت بننے سے تین بر اعظموں میں پھیلا اور پھر خلافت میں تبدیل ہوا
سلطنت عثمانیہ کی بنیاد 14 ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور یہ 20 ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 37 سلطان اس کی مسند پر بیٹھے۔
ایک مؤرخ کے مطابق کسی خاندان کا مسلسل اتنی دیر حکومت کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔
مؤرخ کیرولائن فنکل اپنی کتاب ’عثمان کا خواب: سلطنت عثمانیہ کی کہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’عثمانیوں کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان کی اناطولیہ (وہ علاقہ جو کسی حد تک آج کے ترکی کی حدود سے مطابقت رکھتا ہے) میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دو صدیوں پر پھیلی ہوئی لڑائی انتہائی سخت تھی
تین براعظموں کے سلطان
منگول آندھی، جس سے بغداد آج تک سنبھل نہیں پایا
قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھول

ارطغرل کے بارے میں عثمانی روایت

مؤرخ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ’سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘ میں اسی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سلطنت عثمانیہ کی شروعات تاریخ کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ سے اہم سوال رہا ہے لیکن اس دور کے ذرائع کی کمی اور بعد کے ادوار میں لکھی گئی روایات میں تضاد کی وجہ سے پورے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔‘
انھوں نے اسی مشہور روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ عثمانیوں کا جد امجد سلمان شاہ تھے جو قائی قبیلے کے سردار تھے اور 12 ویں صدی کے آخر میں شمالی ایران کے ایک علاقے میں آباد رہے
روایت کے مطابق منگول حملوں کے پیش نظر دیگر بہت سے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غلامی اور تباہی سے بچنے کے لیے نئے علاقوں کی طرف روانہ ہوا اور جے شا کے مطابق خیال ہے کہ سلمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گئے اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے واپس چلے گئے۔
جبکہ ارطغرل نے مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اناطولیہ کے علاقے میں داخل ہوگئے جہاں سلجوق حکمرانوں نے ان کی مدد کے بدلے انھیں اناطولیہ کے مغربی علاقے میں زمین دے دی۔
جے شاہ کی کتاب میں درج اس روایت کے مطابق ارطغرل 1280 میں چل بسے اور قبیلے کی قیادت ان کے بیٹے عثمان کو مل گئی۔
فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل نامی ایک قبائلی سردار شمال مغربی اناطولیہ میں آ کر سلجوق اور بازنطینی سلطنتوں کے بیچ کے علاقے میں آباد ہوا اور اس روایت کے مطابق سلجوق سلطان نے ارطغرل کو سوگت میں کچھ علاقہ عطا کیا تھا۔ لیکن ارطغرل کا عثمان سے کیا تعلق تھا

نامعلوم تاریخ والا سکہ

فنکل لکھتی ہیں کہ عثمان کے دور سے ملنے والا واحد سکہ اگر اصلی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارطغرل یقیناً تاریخی شخصیت تھے۔ اس سکے پر درج ہے ’جاری کردہ برائے عثمان ولد ارطغرل‘ درج ہے۔
فنکل مزید لکھتی ہیں کہ عثمان کا اپنے نام پر سکہ جاری کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اس وقت صرف ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اناطولیہ میں اپنے آپ کو سلجوق منگول سلطنت کے سائے سے باہر ایک خود مختار امیر سمجھنا شروع ہو چکے تھے۔

تاریخ میں عثمانیوں کا پہلا ذکر

فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانیوں کا پہلی بار ذکر سنہ 1300 کے قریب ملتا ہے۔
اس وقت کے ایک بازنطینی مؤرخ نے لکھا کہ سنہ 1301 میں بازنطینی فوج کا سامنا عثمان نامی ایک شخص کی فوج سے ہوا۔ ’جنگ بافیوس‘ کہلانے والی یہ لڑائی قسطنطنیہ (استنبول) کے قریب لڑی گئی تھی اور اس میں بازنطینی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔
لیکن عثمانیوں کا بازنطینی سلطنت کی برابری کرنے میں ابھی بہت وقت تھا۔ اور جب ایسا ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک خاندان کا اچانک گمنامی سے نکل کر اتنا آگے آنے کے بارے میں کئی کہانیوں نے بھی جنم لیا۔
تصویر کے کاپی رائٹ
مؤرخ کہتے ہیں کہ عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کا علاقہ قسطنطنیہ کے قریب تھا جس سے کبھی بھی کامیابی کی صورت میں بڑا انعام یقینی تھا۔

عثمان کا خواب

مؤرخُ لیسلی پی پیرس نے اپنی کتاب ’دی امپیریل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی اِن دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آغاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا۔
اس خواب میں انھوں نے دیکھا کہ ایک درویش شیخ ادیبالی کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اس کے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔
اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے ہیں اور کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ عثمان نے جب شیخ ادیبالی سے تعبیر پوچھی تو انھوں نے کہا کہ خدا نے عثمان اور اس کی اولاد کو دنیا کی حکمرانی کے لیے چن لیا ہے اور انھوں نے کہا کہ ان کے سینے سے نکل کر عثمان کے سینے میں داخل ہونے والا چاند ان کی بیٹی ہے اور جو اس خواب کے بعد عثمان کی اہلیہ بن گئیں۔
فنکل لکھتی ہیں کہ ابتدائی عثمانی سلطانوں کو اپنے آغاز کی تاریخ معلوم کرنے سے زیادہ دلچپسی دوسروں پر حکومت کے اپنے حق کو ثابت کرنے میں تھی اور ان کے نزدیک ان کی سلطنت کا آغاز ایک خواب سے ہوا تھا جو عثمان نے ایک بزرگ درویش کے گھر میں قیام کے دوران دیکھا تھا۔
وہ مزید لکھتی ہیں کہ اس خواب کی کہانی کے حق میں دستاویزی ثبوت بھی تاریخ میں ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے زمینوں کے کاغذات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عثمان کے دور میں ادیبالی نامی بزرگ موجود تھے اور اس بات کی بھی کچھ شہادت ہے کہ ان کی بیٹی عثمان کی دو بیویوں میں سے ایک تھیں۔

ارطغرل کا اناطولیہ

ارطغرل کا اناطولیہ 13ویں صدی کا اناطولیہ تھا۔
کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ جس اناطولیہ میں یہ ترک قبائل پہنچے تھے وہاں بہت عرصے سے کئی نسلوں اور مذاہب کے لوگ آباد تھے جن میں یہودی، آرمینیائی، کرد، یونانی اور عرب شامل تھے۔
اس علاقے کے مغرب میں ماضی کے مقابلے میں بہت کمزور بازنطینی سلطنت تھی (جس کا اختیار اچھے دنوں میں اناطولیہ سے ہوتا ہوا شام تک تھا) اور مشرق میں سلجوق جو اپنے آپ کو رومی سلجوق کہتے تھے۔
13ویں صدی کے وسط میں منگولوں کے ہاتھوں شکست نے سلجوقوں کو کمزور کر دیا اور وہ منگولوں کو نذرانے دینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ماضی کی دو طاقتور حکومتوں کا اختیار ان کی سرحدوں کے درمیان واقع ’غیر یقینی صورتحال‘ کے اس علاقے میں نہ ہونے کے برابر تھا۔

لیکن یہ صرف جنگجوؤں کی آماجگاہ نہیں تھا۔ مہم جوئی کرنے والوں کے علاوہ یہاں وہ لوگ بھی تھے جن کے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں تھی۔
فنکل ’فرنٹیئر‘ کے اس علاقے کی، جہاں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی، تصویر کھینچتی ہوئے بتاتی ہیں کہ ’۔۔۔ اس علاقے میں خانہ بدوشوں، نیم خانہ بدوشوں، لٹیروں، فوجی مہمات کے شوقینوں، مختلف پس منظر والے غلاموں، درویشوں، راہبوں اور بکھری ہوئی آبادیوں کے دورے کرتے پادریوں، پناہ کی تلاش میں نکلے ہوئے بے گھر کسانوں، شہر والوں، سکون اور مقدس مقامات کی متلاشی بے چین روحوں، سرپرستی کے متلاشی مسلمان اساتذہ اور خطرات سے نہ ڈرنے والے تاجروں کی گزرگاہوں کے جال بچھے ہوئے تھے۔‘
فنکل لکھتی ہیں کہ اس بدانتظامی والے علاقے کی خاص بات مسلمان درویشوں کی موجودگی تھی۔ مسیحی راہبوں کی طرح وہ بھی ہر وقت سفر میں رہتے یا پھر اپنے پیروکاروں کے درمیان قیام کرتے اور ان کی زندگی روایات کا حصہ بن گئی۔
’درویشوں کی کھولیاں علاقے میں اسلام کی اس تصویر کی نشانی تھیں جو اناطولیہ میں سلجوقوں کی سلطنت کے سنی اسلام کے ساتھ عام تھا۔‘
سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ترک (خانہ بدوش) جب اناطولیہ آئے تو صوفی بزرگ بھی ان کے ساتھ ہی آ گئے جس پر طاقتور سلجوق حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ ان صوفیوں کی لوگوں میں مقبولیت کی وجہ سے اپنے علاقوں سے نکل جانے پر خوش تھے۔‘
جے شا مزید لکھتے ہیں کہ ’اس عمل میں کچھ مسیحی ہلاک اور اپنا علاقہ چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے لیکن زیادہ تر اپنی جگہ پر رہے۔۔۔ کچھ نے اسلام بھی قبول کیا۔۔۔ کچھ ترک صوفی سلسلے مسیحی مذہبی مقامات میں بھی داخل ہوئے جہاں مسیحی اور مسلمان ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ پر عبادت کرتے نظر آتے تھے۔‘

ارطغرل کا مزار

سوگت کے علاقے (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ارطغرل کو سلجوق سلطان سے ملا تھا) میں ارطغرل کے نام کی ایک چھوٹی سی مسجد اور ایک مزار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ ارطغرل کے بیٹے نے ان کے لیے بنائی اور پھر جس میں عثمان کے بیٹے ارہان نے اضافہ کیا۔
کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ اس مسجد اور مزار پر اتنی بار کام ہوا ہے کہ اس کی پہلی تعمیر سے کوئی نشانی نہیں بچی اس لیے کسی عمارت کے بارے میں پورے اعتبار سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عثمان کے دور کی ہے۔
انھوں نے مزید لکھا کہ 19ویں صدی کے آخر میں سلطان عبدالحمید دوم نے کمزور ہوتی سلطنت کی ساکھ بہتر کرنے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی شہرت کا سہارا لینے کی کوشش کی اور سوگت میں ارطغرل کا مزار از سر نو تعمیر کیا اور ’عثمانی شہیدوں‘ کا ایک قبرستان بنایا۔

ارطغرل کی زندگی پر ٹی وی ڈرامہ کیوں؟

امیریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی نے مڈل ایسٹرن رویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سوال اٹھایا کہ ’ترک حکومت نے کئی مشہور کرداروں کو چھوڑ کر آخر ارطغرل کا ہی انتخاب کیوں کیا؟‘
جوش کارنی کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں سلطان سلیمان (1566-1520) اور عبدالحمید دوم (1909-1876) کی شہرت ارطغرل سے بہت زیادہ ہے لیکن ارطغرل پر ٹی وی سیریل بننا بغیر وجہ نہیں۔
ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کی دنیا بھر میں انتہائی کامیاب سیریز ’دیریلیس ارطغرل‘ ان کے قائی قبیلے کی اناطولیہ میں مختلف دشمنوں سے لڑتے ہوئے پیشرفت پر مبنی ہے۔
’نتیجتاً جبکہ تاریخی کردار ارطغرل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ٹی آر ٹی کا کردار ترکی میں اور ترکی سے باہر مقبول ہے اور لوگ اس سے پیار کرتے ہیں۔‘
سنہ 2018 میں لکھے گئے اس مضمون میں کارنی کہتے ہیں کہ اس سیریز کے کئی پہلو ترکی میں ہونے والے آئینی ریفرنڈنم کے اشتہاروں میں واضح تھے جس سے ’کوئی شک نہیں رہتا کہ تاریخ اور پاپولر کلچر کو سیاسی فائدے کے لیے اکٹھا کر دیا گیا ہے۔‘
کارنی کہتے ہیں کہ ایک ایسے کردار کے بارے میں ٹی وی سیریل بنانے میں، جسے لوگ نہیں جانتے ‘آسانی یہ ہے کہ اس کو کسی بھی رنگ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔۔۔ (جبکہ) مقبول شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں لوگ آگاہ ہوتے ہیں۔‘
کارنی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے سلطان سلیمان کے بارے میں سیریز اسی لیے اس طرح کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ ’ارطغرل کے بارے میں سیریز بنانا ایسے ہی تھا جیسے خالی سلیٹ پر مرضی کے رنگ بھرنا

Qasim auto decoration Khushab